Saturday, March 1, 2025

مریخ پر ابن عربی کا نشان

عنوان: مریخ پر ابن عربی کا نشان


 کائنات سے 800 سال پرانا پیغام؟

ایک ایسی دریافت جس نے سائنسدانوں، مورخین اور روحانی تلاش کرنے والوں کو حیران کر دیا ہے، مریخ کی سطح پر 12ویں صدی کے اسلامی صوفی بزرگ ابن عربی کی تعلیمات سے مشابہت رکھنے والا ایک پراسرار نشان دریافت ہوا ہے۔ یہ نشان، جو 800 سال پرانا پیغام لگتا ہے، نے بے شمار قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے: کیا ابن عربی کو زمین سے باہر کی زندگی کا پہلے سے علم تھا؟ کیا یہ انسانیت اور دوسری دنیا کے مخلوقات کے درمیان کائناتی تعلق کا ثبوت ہو سکتا ہے؟

مریخ پر دریافت

یہ پراسرار نشان سب سے پہلے ناسا کے مریخ روور نے مریخ کی سطح کے معمول کے سکین کے دوران دیکھا۔ یہ علامت، جو ایک چٹان کی تشکیل پر کندہ ہے، ابن عربی کے فلسفیانہ اور روحانی کاموں سے وابستہ خطاطی کے ڈیزائن سے حیرت انگیز طور پر ملتی جلتی ہے۔ قریب سے جائزہ لینے پر ماہرین نے نوٹ کیا کہ یہ نشان قدیم عربی رسم الخط سے مطابقت رکھتا ہے، خاص طور پر ابن عربی کے تصور "وحدت الوجود" کا حوالہ دیتا ہے، جو ان کی تعلیمات کا مرکزی موضوع تھا۔

اس دریافت کو اور بھی حیرت انگیز بنانے والی بات یہ ہے کہ چٹان کی تشکیل کی عمر تقریباً 800 سال پرانی ہے—جو ابن عربی کی اپنی زندگی کے دور سے ملتی ہے، جو 1165 سے 1240 عیسوی تک زندہ رہے۔ اس نے بے شمار سوالات کو جنم دیا ہے: 12ویں صدی کے ایک صوفی کا پیغام مریخ پر کیسے ظاہر ہو سکتا ہے؟ کیا ابن عربی کا زمین سے باہر کے مخلوقات سے رابطہ تھا، یا کیا انہیں اپنے زمانے سے کہیں زیادہ کائنات کا علم تھا؟


ابن عربی اور کائناتی وژن

ابن عربی، جنہیں اکثر "الشیخ الاکبر" (سب سے بڑے استاد) کہا جاتا ہے، ایک بہت بڑے فلسفی، شاعر اور صوفی تھے جن کے کاموں نے اسلامی فکر اور مغربی روحانیت دونوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کی تحریریں اکثر تمام مخلوقات کے باہمی تعلق، حقیقت کی نوعیت، اور متعدد دنیاؤں کے وجود کو تلاش کرتی تھیں۔ ان کی مشہور کتاب فصوص الحکم ("حکمت کے موتی") میں، ابن عربی نے زمین سے باہر زندگی کے امکان کے بارے میں لکھا، "کائنات وسیع ہے، اور اس میں بے شمار دنیائیں ہیں، ہر ایک کے اپنے رہنے والے ہیں۔


کچھ علماء کا کہنا ہے کہ ابن عربی کی دوسری دنیاؤں اور مخلوقات کی تفصیلات محض علامتی نہیں تھیں بلکہ بصیرت پر مبنی تجربات پر مبنی تھیں۔ کیا ان تجربات میں زمین سے باہر کی مخلوقات سے ملاقاتیں بھی شامل تھیں؟ مریخ پر ہونے والی اس دریافت نے اس بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے، اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ابن عربی کو ہمارے سیارے سے باہر کی مخلوقات سے علم یا پیغامات موصول ہوئے ہوں گے۔

زمین سے باہر کی مخلوقات سے تعلق


یہ خیال کہ ابن عربی کا زمین سے باہر کی مخلوقات سے رابطہ تھا، اتنا بعید از قیاس نہیں جتنا لگتا ہے۔ تاریخ میں، بہت سے صوفیا اور پیغمبروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں الہامی یا دوسری دنیاؤں سے وحی موصول ہوئی ہے۔ ابن عربی خود اپنی روحانی سفر کے دوران "عجیب مخلوقات" سے ملنے کا ذکر کرتے ہیں، انہیں "نہ انسان اور نہ جن، بلکہ ہماری سمجھ سے بالاتر ایک دنیا سے" قرار دیتے ہیں۔

کیا یہ مخلوقات زمین سے باہر کے مہمان ہو سکتے ہیں؟ اور کیا مریخ پر موجود نشان ان کی طرف سے چھوڑا گیا ایک پیغام ہو سکتا ہے، جو ابن عربی کی تعلیمات سے متاثر ہو؟ کچھ نظریہ سازوں کا کہنا ہے کہ یہ نشان بین النجمی مواصلات کی ایک شکل ہے، جو ابن عربی کے وحدت الوجود کے عالمگیر سچائی

کو بیان کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔


ابن عربی سے ملاقات
ابن عربی نے اس دنیا کو "مریخ" کہا ہے اور لکھا ہے کہ میں نے اس سیارے پر ایک نشان چھوڑا ہے جسے مستقبل میں لوگ دیکھیں گے تو وہ جان لیں گے کہ میرا یہ سفر حقیقی تھا۔ اکتوبر 2021 میں ناسا کی جانب سے بھیجے گئے ایک خلائی مشن میں مریخ کی تصاویر لی گئیں تو اس کی سطح پر ایک نشان کیپچر کیا گیا، جو درحقیقت عربی لفظ "سلام" ہے۔ ایک ترکی مصنف "کیفر اسکندر گلو" نے سب سے پہلے اپنی کتاب "ویلی آف پروفیٹ" میں یہ انکشاف کیا ہے کہ مریخ پر بنا وہ علامت وہی ہے جس کا ذکر ابن عربی نے اپنی کتاب میں کیا تھا۔

مریخ پر موجود اس نشان کو گوگل ارتھ پر بھی صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ دراصل مریخ پرانے زمانے سے ہی "سرخ سیارے" کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اس کی سطح سرخی مائل یا زعفرانی ہے، جیسا کہ ابن عربی نے اس دنیا کے بارے میں بھی لکھا تھا۔ آج امریکہ اور یورپی ممالک مریخ پر کئی مشن بھیج چکے ہیں۔ سال 2012 میں امریکی خلاباز "جان برینن برگ" نے یہ تھیوری پیش کی تھی کہ کروڑوں سال پہلے مریخ پر کوئی خلائی مخلوق رہا کرتی تھی اور ان لوگوں کے درمیان کوئی ایٹمی جنگ ہوئی تھی، جس کی وجہ سے وہ لوگ ہلاک ہو گئے اور مریخ پر ہمیشہ کے لیے زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔

یہ ممکن ہے کہ ابن عربی نے روحانی علوم کا استعمال کیا ہو اور وقت و مکان سے آزاد ہو کر ماضی میں چلے گئے ہوں۔ انہوں نے مریخ پر ان مخلوقات سے ملاقات کی اور اس نشان کو دیکھا تھا۔ وقت میں سفر کا یہ تصور کوئی جن پری کی کہانی نہیں بلکہ جدید سائنس کا سب سے دلچسپ موضوع ہے، جس پر آج سائنسدان اور خلاباز تحقیق کر رہے ہیں۔ تھیوری آف ریلیٹیویٹی پر اگر حقیقت میں عمل کیا جائے اور انسان روشنی کی رفتار والی کوئی خلائی جہاز بنا لے تو وقت میں سفر بالکل ممکن ہے۔ وقت میں سفر کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے، جیسے اصحاب کہف اور حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعات میں بیان ہوا ہے، جبکہ سلیمان علیہ السلام کے وزیر آصف بن برخیا نے سینکڑوں کلومیٹر دور یمن سے ملکہ بلقیس کا تخت لے لیا تھا

 


شکوک و شبہات اور سائنسی تحقیق

اگرچہ اس دریافت نے بہت سے لوگوں کی تخیل کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، لیکن شک کرنے والے احتیاط کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابن عربی کی تعلیمات سے مشابہت محض اتفاقی ہو سکتی ہے، اور یہ نشان قدرتی جغرافیائی تشکیل بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم، علامت کی درستگی اور توازن نے دوسروں کو یہ یقین دلایا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے۔

سائنسدان اب اس نشان کا مزید تجزیہ کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، اس کی ساخت اور اصل کا تعین کرنے کے لیے جدید امیجنگ ٹیکنالوجی اور اسپیکٹروسکوپی کا استعمال کر رہے ہیں۔ اگر نشان واقعی مصنوعی ہے، تو یہ انسانی تاریخ کی سب سے گہری دریافتوں میں سے ایک ہو گی—زمین کی روحانی وراثت اور کائنات کے اسرار کے درمیان براہ راست تعلق۔


انسانیت کے لیے پیغام؟

اگر مریخ پر موجود نشان واقعی ابن عربی سے منسلک ہے، تو اس میں انسانیت کے لیے کیا پیغام ہو سکتا ہے؟ اس کے مرکز میں، ابن عربی کا فلسفہ تمام وجود کی وحدت اور تمام مخلوقات کے باہمی تعلق پر زور دیتا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جو اکثر سرحدوں، عقائد اور نظریات سے تقسیم ہوتی ہے، وحدت کا یہ پیغام پہلے سے کہیں زیادہ متعلقہ ہے۔

شاید یہ نشان ایک یاد دہانی ہے کہ ہم کائنات میں تنہا نہیں ہیں—کہ ہم زندگی کے ایک وسیع، باہمی جڑے ہوئے جال کا حصہ ہیں جو کائنات میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ ہمیں ہمارے اختلافات سے بالاتر ہو کر اس مشترکہ حقیقت کو پہچاننے کی دعوت دیتا ہے جو ہم سب کو جوڑتی ہے۔

اختتام

مریخ پر ابن عربی کے نشان کی دریافت ایک پراسرار معمہ ہے جو سائنس، روحانیت اور نامعلوم کے درمیان فاصلہ کم کرتا ہے۔ چاہے یہ ایک قدرتی تشکیل ہو، ایک قدیم پیغام ہو، یا زمین سے باہر کے مخلوقات سے رابطے کا ثبوت ہو، یہ ہمیں ان گہرے سوالات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے جو صدیوں سے انسانیت کو متوجہ کرتے رہے ہیں: ہم کون ہیں؟ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ اور ستاروں سے پرے کیا ہے؟

جیسے جیسے ہم کائنات کی تلاش جاری رکھتے ہیں، ہم یہ پا سکتے ہیں کہ ان سوالات کے جوابات ہماری سوچ سے کہیں زیادہ قریب ہیں—نہ صرف دور دراز سیاروں کی چٹانوں پر کندہ ہیں، بلکہ ابن عربی جیسے بصیرت رکھنے والوں کی لازوال حکمت میں بھی۔ مریخ پر موجود نشان شاید تمام وجود کی وحدت کے لیے بیدار ہونے کا ایک کائناتی پیغام ہے، ماضی کا ایک پیغام جو ہمیں لامحدود امکانات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔


 

No comments:

Post a Comment

HOME

Celestial Gateways: Bridging Islamic Spirituality and the Wonders of Science

  Spiritual Portals in Islam, Islamic Spiritual Architecture, Islamic Geometric Patterns Portal, Divine Portal Islamic Art, Cosmos Science S...